EN हिंदी
آپ آنکھوں میں بس گئے جب سے | شیح شیری
aap aankhon mein bas gae jab se

غزل

آپ آنکھوں میں بس گئے جب سے

نیرج گوسوامی

;

آپ آنکھوں میں بس گئے جب سے
نیند سے دشمنی ہوئی تب سے

آگ پانی ہوا زمین فلک
اور کیا چاہئے بتا رب سے

پہلے لگتا تھا وہ بھی اوروں سا
دل ملا تو لگا جدا سب سے

ہو گیا عشق آپ سے جانم
جب کہا پوچھنے لگے کب سے

شام ہوتے ہی جام ڈھلنے لگے
ہوش میں بھی ملا کرو شب سے

شبھ مہورت کی راہ مت دیکھو
من میں ٹھانی ہے تو کرو اب سے

تم اکیلے تو ہو نہیں نیرجؔ
زندگی کس کی کٹ سکی ڈھب سے