آؤ یہ خاموشی توڑیں آئینے سے بات کریں
تھوڑی حیرت آنکھ میں بھر لیں تھوڑی سی خیرات کریں
ہجر و وصال کے رنگ تھے جتنے تاریکی میں ڈوب گئے
تنہائی کے منظر میں اب کون سا کار حیات کریں
دیکھو اس کے بعد آئے گی اور اندھیری کالی رات
دھوپ کے ان ٹکڑوں کو چن لیں جمع یہی ذرات کریں
پیاسوں کے جھرمٹ میں ہیں اور اتنا سوچ رہے ہیں ہم
آنکھوں کے اس بوجھل پن کو کیسے نہر فرات کریں
پانی پانی کہنے والے دریا دریا ڈوب گئے
کس منہ سے ساحل والوں سے تشنہ لبی کی بات کریں
غزل
آؤ یہ خاموشی توڑیں آئینے سے بات کریں
مہتاب حیدر نقوی