آؤ پھر مل جائیں سب باتیں پرانی چھوڑ کر
جا نہیں سکتے کہیں دریا روانی چھوڑ کر
وہ مرے کاسے میں یادیں چھوڑ کر یوں چل دیا
جس طرح الفاظ جاتے ہوں معانی چھوڑ کر
تم مرے دل سے گئے ہو تو نگاہوں سے بھی جاؤ
پھر وہاں ٹھہرا نہیں کرتے نشانی چھوڑ کر
اب سنا ہے عام شہری کی طرح پھرتے ہو تم
کیا ملا ہے میرے دل کی حکمرانی چھوڑ کر
بس ابھی طوفان غم کا تذکرہ آیا ہی تھا
سب گھروں کو چل دئیے میری کہانی چھوڑ کر
اس طرح میرے قبیلے میں کبھی ہوتا نہیں
کیسے جاؤں تیرے غم کی میزبانی چھوڑ کر
یہ کلام اللہ کب ہے جو سدا باقی رہے
دار فانی سے چلے ہیں نقش فانی چھوڑ کر
غزل
آؤ پھر مل جائیں سب باتیں پرانی چھوڑ کر
شہنواز زیدی