آنسو شعلوں میں ڈھل رہے ہیں
غم دل کی فضا بدل رہے ہیں
گلشن ہے انہیں کا گل انہیں کے
کانٹوں پہ جو ہنس کے چل رہے ہیں
ایک ایک نفس میں روشنی ہے
یادوں کے چراغ جل رہے ہیں
چپ چپ سی ہے تلخیٔ زمانہ
غم جام و سبو میں ڈھل رہے ہیں
مٹ مٹ کے ابھر رہی ہے دنیا
بجھ بجھ کے چراغ جل رہے ہیں
اللہ رے اعتبار ہستی
ہم خواب میں جیسے چل رہے ہیں
اس سمت بھی گردش زمانہ
کچھ لوگ ابھی سنبھل رہے ہیں
ساحل پہ انہیں کا حق ہے شاعرؔ
طوفاں کا جو رخ بدل رہے ہیں

غزل
آنسو شعلوں میں ڈھل رہے ہیں
شاعر لکھنوی