EN हिंदी
آنسو مری آنکھوں سے ٹپک جائے تو کیا ہو | شیح شیری
aansu meri aankhon se Tapak jae to kya ho

غزل

آنسو مری آنکھوں سے ٹپک جائے تو کیا ہو

شوق بہرائچی

;

آنسو مری آنکھوں سے ٹپک جائے تو کیا ہو
طوفاں کوئی پھر آ کے دھمک جائے تو کیا ہو

بس اس لیے رہبر پہ نہیں مجھ کو بھروسہ
بدھو ہے وہ خود راہ بھٹک جائے تو کیا ہو

اچھی یہ تصور کی نہیں دست درازی
انگیا کہیں اس بت کی مسک جائے تو کیا ہو

واعظ یہ گلستاں یہ بہاریں یہ گھٹائیں
ساغر کوئی ایسے میں کھنک جائے تو کیا ہو

یہ چاہ کنی میرے لیے بانئ بیداد
تو خود اسی کوئیاں میں لڑھک جائے تو کیا ہو

غربت سے مری صبح و مسا کھیلنے والے
تیرا بھی دوالا جو کھسک جائے تو کیا ہو

یہ بار امانت تو اٹھاتا تو ہے لیکن
نازک ہے کمر تیری لچک جائے تو کیا ہو

رک رک کے ذرا ہاتھ بڑھا خوان کرم پر
لقمہ کوئی جلدی میں اٹک جائے تو کیا ہو

میں قید ہوں پر آہ رسا قید نہیں ہے
وہ جیل کی دیوار تڑک جائے تو کیا ہو

اے ساقیٔ گلفام ذرا سوچ لے یہ بھی
کلہڑ تری ہستی کا چھلک جائے تو کیا ہو

جلاد سے اے شوقؔ میں یہ پوچھ رہا ہوں
تو بھی یوں ہی پھانسی پہ لٹک جائے تو کیا ہو