EN हिंदी
آنسو کو اپنے دیدۂ تر سے نکالنا | شیح شیری
aansu ko apne dida-e-tar se nikalna

غزل

آنسو کو اپنے دیدۂ تر سے نکالنا

حزیں لدھیانوی

;

آنسو کو اپنے دیدۂ تر سے نکالنا
لگتا ہے میہمان کو گھر سے نکالنا

سوکھے ہوئے شجر میں لہو تو نہیں ہے خشک
کونپل کوئی نمو کی شجر سے نکالنا

اس یخ زدہ فضا میں گر اڑنے کا قصد ہے
بے حس رتوں کی برف کو پر سے نکالنا

جس صبح کے جلو میں شبوں کا ہجوم ہو
کرنوں کو ایسے دام سحر سے نکالنا

جس سے شب حیات کا سناٹا ٹوٹ جائے
آواز ایسی ساز ہنر سے نکالنا

سب کا نہیں یہ اہل بصیرت کا کام ہے
گہری خبر بھی سطحی خبر سے نکالنا

رستہ کٹھن ہو لاکھ نہ ہونا حزیںؔ ملول
پہلو خوشی کا رنج سفر سے نکالنا