آنسو کو اپنے دیدۂ تر سے نکالنا
لگتا ہے میہمان کو گھر سے نکالنا
سوکھے ہوئے شجر میں لہو تو نہیں ہے خشک
کونپل کوئی نمو کی شجر سے نکالنا
اس یخ زدہ فضا میں گر اڑنے کا قصد ہے
بے حس رتوں کی برف کو پر سے نکالنا
جس صبح کے جلو میں شبوں کا ہجوم ہو
کرنوں کو ایسے دام سحر سے نکالنا
جس سے شب حیات کا سناٹا ٹوٹ جائے
آواز ایسی ساز ہنر سے نکالنا
سب کا نہیں یہ اہل بصیرت کا کام ہے
گہری خبر بھی سطحی خبر سے نکالنا
رستہ کٹھن ہو لاکھ نہ ہونا حزیںؔ ملول
پہلو خوشی کا رنج سفر سے نکالنا
غزل
آنسو کو اپنے دیدۂ تر سے نکالنا
حزیں لدھیانوی