آنسو بھی وہی کرب کے سائے بھی وہی ہیں
ہم گردش دوراں کے ستائے بھی وہی ہیں
کیا بات ہے کیوں شہر میں اب جی نہیں لگتا
حالانکہ یہاں اپنے پرائے بھی وہی ہیں
اوراق دل و جاں پہ جنہیں تم نے لکھا ہے
نغمات الم ہم نے سنائے بھی وہی ہیں
اے جوش جنوں درد کا عالم بھی وہی ہے
اے وحشت جاں درد کے سائے بھی وہی ہیں
دیکھا ہے جنہیں آہ بلب چاک گریباں
ہر داغ الم دل میں چھپائے بھی وہی ہیں
سو رنگ بکھیریں گے محبت کے شگوفے
گلنارؔ چمن میں ہمیں لائے بھی وہی ہیں
غزل
آنسو بھی وہی کرب کے سائے بھی وہی ہیں
گلنار آفرین