آنسوؤں میں ذرا سی ہنسی گھول کر
زہر اس نے دیا زندگی گھول کر
اس کے چہرے پہ لکھنا ہے کوئی غزل
روشنائی میں کچھ چاندنی گھول کر
ایک کار زیاں کے سوا کچھ نہیں
دیکھ لی شور میں خامشی گھول کر
دور حاضر کے سچے غزل کار ہم
ایک لمحے میں لائے صدی گھول کر
ایک اخبار بھی آج ایسا نہیں
دے خبر صبح کی روشنی گھول کر
دھوپ کی تیزیاں کچھ تو مدھم پڑیں
دیکھیے موسموں کی نمی گھول کر
نرم لفظوں میں ہو ذکر بیگانگی
بات کڑوی کہو چاشنی گھول کر
غزل
آنسوؤں میں ذرا سی ہنسی گھول کر
شاہد میر