آنسوؤں میں کبھی ڈھلی ہے رات
درد بن کے کبھی اٹھی ہے رات
کوئی سورج کہیں سے آ جائے
کتنی ویران ہو گئی ہے رات
صبح سے ہم کلام ہونے کو
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
پھر اجالوں کا خوں ہوا شاید
قتل گاہوں میں بٹ گئی ہے رات
دل میں کہرام کم نہ ہوگا اثرؔ
تم بھی سو جاؤ سو گئی ہے رات
غزل
آنسوؤں میں کبھی ڈھلی ہے رات
محمد علی اثر