آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی
ہم جیسی چاہتے تھے بنا لی ہے روشنی
دریا غروب ہونے چلا تھا کہ آج رات
غرقاب کشتیوں نے اچھالی ہے روشنی
اپنی نشست چھوڑ کے واں رکھ دیا چراغ
میں نے زمین دے کے بچا لی ہے روشنی
ہاتھوں کا امتحان لیا ساری ساری رات
سانچے میں صبح و شام کے ڈھالی ہے روشنی
میں نے کنار شام گزاری ہے ایک عمر
میں جانتا ہوں ڈوبنے والی ہے روشنی
کیا راکھ گر رہی ہے نظر کی منڈیر سے
خالی دیا ہے اور خیالی ہے روشنی
اس بار تیرے خواب میں رکھا ہے اپنا خواب
اس بار روشنی میں سنبھالی ہے روشنی

غزل
آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی
شاہین عباس