EN हिंदी
آنکھوں سے ٹپکے اوس تو جاں میں نمی رہے | شیح شیری
aankhon se Tapke os to jaan mein nami rahe

غزل

آنکھوں سے ٹپکے اوس تو جاں میں نمی رہے

حسن نعیم

;

آنکھوں سے ٹپکے اوس تو جاں میں نمی رہے
مہکے امید درد کی کھیتی ہری رہے

یہ کیا کہ آج وصل تو کل صدمۂ فراق
تب ہے مزا کہ بزم نگاراں جمی رہے

کب پوچھتا ہے کوئی لگاوٹ سے دل کا حال
یاروں کا ہے مزاج کہ کچھ دل لگی رہے

آفات کے پہاڑ کا دن رات سامنا
کس کی پناہ مانگے کہاں آدمی رہے

جس نے بھی جانا عشق کو تفریح خوش رہا
سنجیدہ ہو کے ہم تو نہایت دکھی رہے

جی چاہتا ہے پھر اسی مہ وش سے ربط ہو
خلوت کدے میں روح کے پھر چاندنی رہے

دل کیا بجھا کہ نور نہیں چار سو نعیمؔ
جلتا رہے دماغ تو کچھ روشنی رہے