EN हिंदी
آنکھوں سے نور دل سے خوشی چھین لی گئی | شیح شیری
aankhon se nur dil se KHushi chhin li gai

غزل

آنکھوں سے نور دل سے خوشی چھین لی گئی

اقبال عظیم

;

آنکھوں سے نور دل سے خوشی چھین لی گئی
ہم سے ہماری زندہ دلی چھین لی گئی

اک روز اتفاق سے ہم مسکرائے تھے
اس کی سزا میں ہم سے ہنسی چھین لی گئی

کتنے چراغ نور سے محروم ہو گئے
جب سے ہماری خوش نظری چھین لی گئی

شکوہ مرا مزاج نہ ماتم مری سرشت
ہر چند مجھ سے خندہ لبی چھین لی گئی

اقبالؔ اس خوشی کا بھروسہ بھی کچھ نہ تھا
اچھا ہوا یہ درد سری چھین لی گئی