آنکھوں سے نور دل سے خوشی چھین لی گئی
ہم سے ہماری زندہ دلی چھین لی گئی
اک روز اتفاق سے ہم مسکرائے تھے
اس کی سزا میں ہم سے ہنسی چھین لی گئی
کتنے چراغ نور سے محروم ہو گئے
جب سے ہماری خوش نظری چھین لی گئی
شکوہ مرا مزاج نہ ماتم مری سرشت
ہر چند مجھ سے خندہ لبی چھین لی گئی
اقبالؔ اس خوشی کا بھروسہ بھی کچھ نہ تھا
اچھا ہوا یہ درد سری چھین لی گئی
غزل
آنکھوں سے نور دل سے خوشی چھین لی گئی
اقبال عظیم