آنکھوں سے مناظر کا تسلسل نہیں ٹوٹا
میں لٹ گیا پر تیرا تغافل نہیں ٹوٹا
تشنہ تھا میں بہتا رہا دریا مرے آگے
لیکن میرے ہونٹوں کا تحمل نہیں ٹوٹا
صدیوں سے بغل گیر ہیں ایک دوجے سے لیکن
دریا کے کناروں کا تجاہل نہیں ٹوٹا
الجھا ہوں کئی بار مسائل کے بھنور میں
میں ٹوٹ گیا میرا توکل نہیں ٹوٹا
خاموش ہوا چیختے دریا کا تلاطم
اے تیشۂ فرہاد ترا غل نہیں ٹوٹا
غزل
آنکھوں سے مناظر کا تسلسل نہیں ٹوٹا
ندیم ماہر