آنکھوں سے جب یہ خواب سنہرے اتر گئے
ہم دل میں اپنے اور بھی گہرے اتر گئے
سانپوں نے من کی بین کو کاٹا ہے اس طرح
تھے اس کے پاس جتنے بھی لہرے اتر گئے
لائے ہیں وہ ہی آگ کے موتی بٹور کر
جو آنسوؤں کی برف میں گہرے اتر گئے
لوگوں کے درد و غم بھی سیاست کے ذہن میں
جھنڈوں سے ایک دن کو ہی پھہرے اتر گئے
پہرے پہ سب ہی چور ہیں یہ تب پتا چلا
آنکھوں سے جب یہ نیند کے پہرے اتر گئے
ہم جب تٹوں کے پاس رہے ڈوبتے رہے
جب جب بھنور کے بیچ میں ٹھہرے اتر گئے
نعروں کی سیڑھیوں کو لگا کر چڑھے جو لوگ
ہو کر انہیں کی چوٹ سے بہرے اتر گئے
جس دن سے میرے دل میں کنورؔ بس گئے ہیں آپ
دنیا کے مجھ پہ جتنے تھے پہرے اتر گئے
غزل
آنکھوں سے جب یہ خواب سنہرے اتر گئے
کنور بے چین