EN हिंदी
آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے | شیح شیری
aankhon se ek KHwab guzarne wala hai

غزل

آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے

امجد اسلام امجد

;

آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے
کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے

صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے
مہر عالم تاب گزرنے والا ہے

جادوگر کی قید میں تھے جب شہزادے
قصے کا وہ باب گزرنے والا ہے

سناٹے کی دہشت بڑھتی جاتی ہے
بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے

دریاؤں میں ریت اڑے گی صحرا کی
صحرا سے گرداب گزرنے والا ہے

مولا جانے کب دیکھیں گے آنکھوں سے
جو موسم شاداب گزرنے والا ہے

ہستی امجدؔ دیوانے کا خواب سہی
اب تو یہ بھی خواب گزرنے والا ہے