آنکھوں سے عیاں زخم کی گہرائی تو اب ہے
اب آ بھی چکو وقت مسیحائی تو اب ہے
پہلے غم فرقت کے یہ تیور تو نہیں تھے
رگ رگ میں اترتی ہوئی تنہائی تو اب ہے
طاری ہے تمناؤں پہ سکرات کا عالم
ہر سانس رفاقت کی تمنائی تو اب ہے
کل تک مری وحشت سے فقط تم ہی تھے آگاہ
ہر گام پہ اندیشۂ رسوائی تو اب ہے
کیا جانے مہکتی ہوئی صبحوں میں کوئی دل
شاموں میں کسی درد کی رعنائی تو اب ہے
دل سوز یہ تارے ہیں تو جاں سوز یہ مہتاب
در اصل شب انجمن آرائی تو اب ہے
صف بستہ ہیں ہر موڑ پہ کچھ سنگ بکف لوگ
اے زخم ہنر لطف پذیرائی تو اب ہے
غزل
آنکھوں سے عیاں زخم کی گہرائی تو اب ہے
اعتبار ساجد