آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے رہے
ہم تیرے انتظار میں پھر بھی کھڑے رہے
تم رک گئے پہ سنگ کا میلہ نہ کم ہوا
اس کارواں کے ساتھ مسافر بڑے رہے
میرے بدن پہ صرف ہوا کا لباس تھا
تیری قبا میں چاند ستارے جڑے رہے
سائے کو لوگ پوجتے آئے ہیں دیر سے
پتے ہمیشہ پاؤں میں بکھرے پڑے رہے
شاید وہ رامؔ میری طرح بد نصیب تھے
جو لوگ تیرے پیار کی ضد پر اڑے رہے

غزل
آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے رہے
رام ریاض