آنکھوں میں سوغات سمیٹے اپنے گھر آتے ہیں
بجرے لاگے بندر گاہ پہ سوداگر آتے ہیں
زرد زبور تلاوت کرتی ہے تصویر خزاں کی
عین بہار میں کیسے کیسے خواب نظر آتے ہیں
گندم اور گلابوں جیسے خواب شکستہ کرتے
دور دراز زمینوں والے شہر میں در آتے ہیں
شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک
کتنی محرابیں پڑتی ہیں کتنے در آتے ہیں
بند قبائے سرخ کی منزل ان پر سہل ہوئی ہے
جن ہاتھوں کو آگ چرا لینے کے ہنر آتے ہیں
غزل
آنکھوں میں سوغات سمیٹے اپنے گھر آتے ہیں
ثروت حسین