EN हिंदी
آنکھوں میں رنگ پیار کے بھرنے لگی ہوں میں | شیح شیری
aankhon mein rang pyar ke bharne lagi hun main

غزل

آنکھوں میں رنگ پیار کے بھرنے لگی ہوں میں

مینا نقوی

;

آنکھوں میں رنگ پیار کے بھرنے لگی ہوں میں
آئینہ سامنے ہے سنورنے لگی ہوں میں

آنکھوں میں اس کی پا کے اشارے وفاؤں کے
گہرے سمندروں میں اترنے لگی ہوں میں

منزل نہ قافلہ نہ مسافر نہ راہبر
یہ کیسے راستوں سے گزرنے لگی ہوں میں

احباب کے فریب مسلسل نے یہ کیا
پرچھائیوں سے اپنی ہی ڈرنے لگی ہوں میں

افلاک جب انا کے پگھلتے ہوئے ملے
پر اپنی آرزو کے کترنے لگی ہوں میں

میناؔ تصورات میں پرچھائیاں سی ہیں
جانے یہ زندگی ہے کہ مرنے لگی ہوں میں