آنکھوں میں رنگ پیار کے بھرنے لگی ہوں میں
آئینہ سامنے ہے سنورنے لگی ہوں میں
آنکھوں میں اس کی پا کے اشارے وفاؤں کے
گہرے سمندروں میں اترنے لگی ہوں میں
منزل نہ قافلہ نہ مسافر نہ راہبر
یہ کیسے راستوں سے گزرنے لگی ہوں میں
احباب کے فریب مسلسل نے یہ کیا
پرچھائیوں سے اپنی ہی ڈرنے لگی ہوں میں
افلاک جب انا کے پگھلتے ہوئے ملے
پر اپنی آرزو کے کترنے لگی ہوں میں
میناؔ تصورات میں پرچھائیاں سی ہیں
جانے یہ زندگی ہے کہ مرنے لگی ہوں میں
غزل
آنکھوں میں رنگ پیار کے بھرنے لگی ہوں میں
مینا نقوی