آنکھوں میں رات خواب کا خنجر اتر گیا
یعنی سحر سے پہلے چراغ سحر گیا
اس فکر ہی میں اپنی تو گزری تمام عمر
میں اس کو تھا پسند تو کیوں چھوڑ کر گیا
آنسو مرے تو میرے ہی دامن میں آئے تھے
آکاش کیسے اتنے ستاروں سے بھر گیا
کوئی دعا کبھی تو ہماری قبول کر
ورنہ کہیں گے لوگ دعا سے اثر گیا
نکلی ہے فال اب کے عجب میرے نام کی
سورج ہی وہ نہیں ہے جو ڈھلنے سے ڈر گیا
پچھلے برس حویلی ہماری کھنڈر ہوئی
برسا جو اب کے ابر تو سمجھو کھنڈر گیا
میں پوچھتا ہوں تجھ کو ضرورت تھی کیا نظامؔ
تو کیوں چراغ لے کے اندھیرے کے گھر گیا
غزل
آنکھوں میں رات خواب کا خنجر اتر گیا
شین کاف نظام