آنکھوں میں نہاں ہے جو مناجات وہ تم ہو
جس سمت سفر میں ہے مری ذات وہ تم ہو
جو سامنے ہوتا ہے کوئی اور ہے شاید
جو دل میں ہے اک خواب ملاقات وہ تم ہو
دن آئے گئے جیسے سرائے میں مسافر
ٹھہری رہی آنکھوں میں جو اک رات وہ تم ہو
ہر بات میں شامل ہیں تصور کے کئی رنگ
ہر رنگ تصور میں ہے جو بات وہ تم ہو
جب دھول ہوئے راہ سفر میں تو یہ جانا
منزل گہہ جاں ہیں جو مقامات وہ تم ہو
دکھ حد سے جو گزرا تو کھلا دل پہ کہ یوں بھی
در پردہ ہے جو محو مدارات وہ تم ہو
دل جوئی کا انداز بھی نرمی بھی وہی ہے
سینے پہ ہوا رکھتی ہے جو ہات وہ تم ہو
باقی تو اندھیرے ہی محیط دل و جاں ہیں
مہر و مہ و انجم ہیں جو لمحات وہ تم ہو
ہاں مجھ پہ ستم بھی ہیں بہت وقت کے لیکن
کچھ وقت کی ہیں مجھ پہ عنایات وہ تم ہو
غزل
آنکھوں میں نہاں ہے جو مناجات وہ تم ہو
ضیا جالندھری