آنکھوں میں کہیں اس کے بھی طوفاں تو نہیں تھا
وہ مجھ سے جدا ہو کے پشیماں تو نہیں تھا
کیوں مجھ سے نہ کی اس نے سر بزم کوئی بات
میں سنگ ملامت سے گریزاں تو نہیں تھا
ہاں حرف تسلی کے لیے تھا میں پریشاں
پہلو میں مرے دل تھا کہستاں تو نہیں تھا
کیوں راستہ دیکھا کیا اس کا میں سر شام
بے درد کا مجھ سے کوئی پیماں تو نہیں تھا
جلوہ تھا ترا آگ میں ہر لحظہ ہویدا
ورنہ مجھے جل مرنے کا ارماں تو نہیں تھا
تھا دل بھی کبھی شہر تمنا سے مماثل
یہ قریہ ہمیشہ سے بیاباں تو نہیں تھا
طوفان الم کیوں مجھے ساحل پہ اتارا
میں شور تلاطم سے ہراساں تو نہیں تھا
رکھا تھا چھپا کر جسے الفاظ میں میں نے
پردے میں سخن کے بھی وہ عریاں تو نہیں تھا
کہتے ہیں کہ ہے عرشؔ نگوں پائے نبیؐ پر
ایسا وہ کوئی صاحب ایماں تو نہیں تھا
غزل
آنکھوں میں کہیں اس کے بھی طوفاں تو نہیں تھا
عرش صدیقی