آنکھوں میں جو ہماری یہ جالوں کے داغ ہیں
یہ تو ہمارے اپنے خیالوں کے داغ ہیں
میری ہتھیلیوں پہ جو مہندی سے رچ گئے
یہ آنسوؤں میں بھیگے رومالوں کے داغ ہیں
باہر نکل کے جسم سے جاؤں تو کس طرح
سانکل کہیں کہیں پہ یہ تالوں کے داغ ہیں
تم جن کو کہہ رہے ہو مرے قدموں کے نشاں
وہ سب تو میرے پاؤں کے چھالوں کے داغ ہیں
کاجل میں گھل کے اور زیادہ نکھر گئے
اشکوں کو یہ نہ کہنا خیالوں کے داغ ہیں
حل ہوتے ہوتے اس کی نتیجے پہ آ گئے
جتنے جواب ہیں وہ سوالوں کے داغ ہیں
آتے ہی میرے پاس جو اکثر چھلک پڑے
ہونٹوں پہ میرے ایسے ہی پیالوں کے داغ ہیں
ایسے بھی لوگ ہیں جو ستاروں کو دیکھ کر
کہتے ملیں ہیں یہ تو اجالوں کے داغ ہیں
جو مجھ میں دیکھتے ہیں مرے بھی ہیں اے کنورؔ
کچھ ان میں مجھ کو دیکھنے والوں کے داغ ہیں
غزل
آنکھوں میں جو ہماری یہ جالوں کے داغ ہیں
کنور بے چین