EN हिंदी
آنکھوں میں حیا رکھ کے بھی بے باک بہت تھے | شیح شیری
aankhon mein haya rakh ke bhi bebak bahut the

غزل

آنکھوں میں حیا رکھ کے بھی بے باک بہت تھے

غوثیہ خان سبین

;

آنکھوں میں حیا رکھ کے بھی بے باک بہت تھے
تھے تیرے گنہ گار مگر پاک بہت تھے

میں اپنا سمجھتی رہی ارباب‌ وفا کو
وہ غیر سے ملتے رہے چالاک بہت تھے

یہ بھی کوئی الفت کا طریقہ ہے جہاں میں
رہ رہ کے جلے ہجر میں ہم خاک بہت تھے

معصوم کو پھر مار دیا کوکھ میں ماں کی
قصہ جو سنے ہم نے وہ غم ناک بہت تھے

ہم لوگ سبیںؔ نرم مزاجی کے پیمبر
جو لوگ ملے ہم سے وہ سفاک بہت تھے