EN हिंदी
آنکھوں میں ایک خواب پس خواب اور ہے | شیح شیری
aankhon mein ek KHwab pas-e-KHwab aur hai

غزل

آنکھوں میں ایک خواب پس خواب اور ہے

سعود عثمانی

;

آنکھوں میں ایک خواب پس خواب اور ہے
اک موج تند و تیز تہہ آب اور ہے

ان سے بھی میری دوستی ان سے بھی رنجشیں
سینے میں ایک حلقۂ احباب اور ہے

شاید کبھی کھلے یہ مرے نغمہ گر پہ بھی
یہ ساز جسم اور ہے مضراب اور ہے

چلیے کہیں زمیں کی کشش کچھ تو کم ہوئی
خشکی پہ جسم اور تہہ آب اور ہے

پھر آ نہ جائے لوٹ کے یہ زلزلہ ابھی
جو آ کے تھم گیا تھا وہ سیلاب اور ہے

اس آئینے پہ گرد کے چہرے مٹا کے بھی
مٹی کا ایک نقش پس آب اور ہے

اتنی سیاہ رات میں اتنی سی روشنی
یہ چاند وہ نہیں مرا مہتاب اور ہے