آنکھوں میں دھوپ دل میں حرارت لہو کی تھی
آتش جوان تھا تو قیامت لہو کی تھی
زخمی ہوا بدن تو وطن یاد آ گیا
اپنی گرہ میں ایک روایت لہو کی تھی
خنجر چلا کے مجھ پہ بہت غم زدہ ہوا
بھائی کے ہر سلوک میں شدت لہو کی تھی
کوہ گراں کے سامنے شیشے کی کیا بساط
عہد جنوں میں ساری شرارت لہو کی تھی
رخسار و چشم و لب گل و صہبا شفق حنا
دنیائے رنگ و بو میں تجارت لہو کی تھی
خالدؔ ہر ایک غم میں برابر شریک تھا
سارے جہاں کے بیچ رفاقت لہو کی تھی
غزل
آنکھوں میں دھوپ دل میں حرارت لہو کی تھی
خالد ؔمحمود