آنکھوں میں چبھ رہی ہے گزرتی رتوں کی دھوپ
جلوہ دکھائے اب تو نئے موسموں کی دھوپ
شام فراق گزرے تو سورج طلوع ہو
دل چاہتا ہے پھر سے وہی قربتوں کی دھوپ
اس میں تمازتیں بھی سہی شدتیں تو ہیں
الفت کی چھاؤں سے ہے بھلی نفرتوں کی دھوپ
میں اس کے واسطے ہوں بہاروں کی چاندنی
اس کا وجود میرے لیے سردیوں کی دھوپ
محرومیٔ وصال ہے ناصرؔ مجھے قبول
اس پر مگر پڑے نہ کبھی گردشوں کی دھوپ
غزل
آنکھوں میں چبھ رہی ہے گزرتی رتوں کی دھوپ
ناصر زیدی