آنکھوں میں بسے ہو تم آنکھوں میں عیاں ہو کر
دل ہی میں نہ رہ جاؤ آنکھوں سے نہاں ہو کر
ہاں لب پہ بھی آ جاؤ انداز بیاں ہو کر
آنکھوں میں بھی آ جاؤ اب دل کی زباں ہو کر
کھل جاؤ کبھی مجھ سے مل جاؤ کبھی مجھ کو
رہتے ہو مرے دل میں الفت کا گماں ہو کر
ہے شیخ کا یہ عالم اللہ رے بدمستی
آنکھوں ہی سے ظاہر ہے آیا ہے جہاں ہو کر
بدنامی و بربادی انجام محبت ہیں
دنیا میں رہا فرحتؔ رسوائے جہاں ہو کر
غزل
آنکھوں میں بسے ہو تم آنکھوں میں عیاں ہو کر
فرحت کانپوری