آنکھوں میں بس گیا کوئی بانہوں سے دور ہے
چاہا ہے چاند کو یہی اپنا قصور ہے
دوزخ میں جی رہا ہوں اسی ایک آس پہ
جنت کو کوئی راستہ جاتا ضرور ہے
میں لڑکھڑا رہا ہوں صداقت کی راہ پہ
اس روح پہ ابھی بھی بدن کا سرور ہے
یہ روشنی کے داغ اجالے تو ہیں نہیں
قاصر سا آسماں کے ستاروں کا نور ہے
اب کیا بتائیں تم کو صفت دل کے داغ کی
ہم مفلسوں کے پاس کوئی کوہ نور ہے
بھگوان بن گیا ہے مرا یار آج کل
رہتا ہے ساتھ پھر بھی لگے دور دور ہے
کیوں عشق کی کراہ گداگر کی آہ ہو
کیا حسن کا غرور خدائی کا نور ہے
غزل
آنکھوں میں بس گیا کوئی بانہوں سے دور ہے
مینک اوستھی