آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں
ہم کل کی آستینیں اب تک سکھا رہے ہیں
احساں جتا جتا کر نشتر لگا رہے ہیں
میری کہانیاں سب مجھ کو سنا رہے ہیں
آنسو غم و خوشی کے جلوے دکھا رہے ہیں
کچھ جگمگا رہے ہیں کچھ جھلملا رہے ہیں
ساقی کے روٹھنے پر رندوں میں برہمی ہے
ساغر سے آج ساغر ٹکرائے جا رہے ہیں
اب چاہے شکل فردا جتنی حسین تر ہو
جو دن گزر گئے ہیں وہ یاد آ رہے ہیں
ہمت نہ ہار دینا اے حسرت نظارہ
اک آفتاب سے ہم آنکھیں لڑا رہے ہیں
وحشی ہیں کس کے کتنا ستھرا مذاق غم ہے
شبنم سے آنسوؤں کے قطرے ملا رہے ہیں
آنکھوں پر اپنی رکھ کر ساحل کی آستیں کو
ہم دل کے ڈوبنے پر آنسو بہا رہے ہیں
کھلتا سراجؔ کچھ تو یہ راز زندگی کا
یہ ہر نفس میں کس کے پیغام آ رہے ہیں
غزل
آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں
سراج لکھنوی