EN हिंदी
آنکھوں کو خواب ناک بنانا پڑا مجھے | شیح شیری
aankhon ko KHwab-nak banana paDa mujhe

غزل

آنکھوں کو خواب ناک بنانا پڑا مجھے

صائم جی

;

آنکھوں کو خواب ناک بنانا پڑا مجھے
سو رتجگوں سے ربط بڑھانا پڑا مجھے

شاید ہوا تھی ایک بہانے کی منتظر
کچھ اس لیے بھی دیپ جلانا پڑا مجھے

اس کی لگائی آگ نے شہروں کو آ لیا
ملا کو جا کے دین سکھانا پڑا مجھے

دل شوخیوں سے باز نہ آتا تھا اس لیے
اس کو دیار عشق میں لانا پڑا مجھے

سنتی نہیں تھی خلق خدا چیخ چیخ کر
اب آسمان سر پہ اٹھانا پڑا مجھے

اک تابناک عشق کے اس اختتام پر
کچھ دل کا حوصلہ بھی بڑھانا پڑا مجھے

دریافت ایک شخص کو کرنا تھا دوستو
سو آئنے کے سامنے جانا پڑا مجھے