آنکھوں کو انتشار ہے دل بے قرار ہے
اے آنے والے آقا ترا انتظار ہے
بالیں پہ وقت نزع کوئی شرمسار ہے
اے زندگی پلٹ کہ ترا انتظار ہے
اللہ ری یہ نزاکت یک جلوۂ نگاہ
خود ان کا حسن ان کی طبیعت پہ بار ہے
جینے پہ اختیار نہ مرنے پہ اختیار
صدقہ اس اختیار کے کیا اختیار ہے
قسمت جدا سہی پہ حقیقت تو ایک ہے
جو شمع بزم ہے وہی شمع مزار ہے
تم دور ہو تو لاکھ بہاریں بھی ہیں خزاں
تم پاس ہو اگر تو خزاں بھی بہار ہے
اقبال آج شہر نگاراں میں میرا دل
اس پر نثار ہے کبھی اس پر نثار ہے
غزل
آنکھوں کو انتشار ہے دل بے قرار ہے
اقبال حسین رضوی اقبال