آنکھوں کی دہلیز پے آ کر بیٹھ گئی
تیری صورت خواب سجا کر بیٹھ گئی
کل تیری تصویر مکمل کی میں نے
فوراً اس پر تتلی آ کر بیٹھ گئی
تانا بانا بنتے بنتے ہم ادھڑے
حسرت پھر تھک کر غش کھا کر بیٹھ گئی
کھوج رہا ہے آج بھی وہ گولر کا پھول
دنیا تو افواہ اڑا کر بیٹھ گئی
رونے کی ترکیب ہمارے آئی کام
غم کی مٹی پانی پا کر بیٹھ گئی
وہ بھی لڑتے لڑتے جگ سے ہار گیا
چاہت بھی گھر بار لٹا کر بیٹھ گئی
بوڑھی ماں کا شاید لوٹ آیا بچپن
گڑیوں کا انبار لگا کر بیٹھ گئی
اب کے چراغوں نے چونکایا دنیا کو
آندھی آخر میں جھنجھلا کر بیٹھ گئی
ایک سے بڑھ کر ایک تھے داؤں شرافت کے
جیت مگر ہم سے کترا کر بیٹھ گئی
تیرے شہر سے ہو کر آئی تیز ہوا
پھر دل کی بنیاد ہلا کر بیٹھ گئی
غزل
آنکھوں کی دہلیز پے آ کر بیٹھ گئی
ارشاد خان سکندر