EN हिंदी
آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا | شیح شیری
aankhon ka pura shahr hi sailab kar gaya

غزل

آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا

آلوک مشرا

;

آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا
یہ کون مجھ میں نظم کی صورت اتر گیا

جنگل میں تیری یاد کے جگنوں چمک اٹھے
میداں سیاہ شب کا اجالوں سے بھر گیا

ورنہ سیاہ رات میں جھلسا ہوا تھا میں
یہ تو تمہاری دھوپ میں کچھ کچھ نکھر گیا

جھوما تھرکتے ناچتے جوڑوں میں کچھ گھڑی
دل پھر نہ جانے کیسی اداسی سے بھر گیا

دونوں انا میں چور تھے ان بن سی ہو گئی
رشتہ نیا نیا سا تھا کچھ دن میں مر گیا

پہلے کچھ ایک دن تو کٹی مشکلوں میں رات
پھر تیرا ہجر میری رگوں میں اتر گیا

ہاتھوں سے اپنے خود ہی نشیمن اجاڑ کر
دیکھو اداس ہو کے پرندہ کدھر گیا

اک چیخ آسمان کے دامن میں سو گئی
دل کی زمیں پہ درد ہر اک سو بکھر گیا