EN हिंदी
آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے | شیح شیری
aankhon ka bharam nahin raha hai

غزل

آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے

سعود عثمانی

;

آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے
سرمایۂ نم نہیں رہا ہے

ہر شے سے پلٹ رہی ہیں نظریں
منظر کوئی جم نہیں رہا ہے

برسوں سے رکے ہوئے ہیں لمحے
اور دل ہے کہ تھم نہیں رہا ہے

یوں محو غم زمانہ ہے دل
جیسے ترا غم نہیں رہا ہے