آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے
سرمایۂ نم نہیں رہا ہے
ہر شے سے پلٹ رہی ہیں نظریں
منظر کوئی جم نہیں رہا ہے
برسوں سے رکے ہوئے ہیں لمحے
اور دل ہے کہ تھم نہیں رہا ہے
یوں محو غم زمانہ ہے دل
جیسے ترا غم نہیں رہا ہے
غزل
آنکھوں کا بھرم نہیں رہا ہے
سعود عثمانی