آنکھوں آنکھوں میں محبت کا پیام آ ہی گیا
مرحبا اذن وداع ننگ و نام آ ہی گیا
عافیت کے نام وحشت کا پیام آ ہی گیا
لو یہ افسانہ قریب اختتام آ ہی گیا
کم سے کم جذب وفا اتنا تو کام آ ہی گیا
بے ارادہ ان کے لب پر میرا نام آ ہی گیا
شیخ کا سب زہد و تقویٰ آج کام آ ہی گیا
جب وہ مینائے رواں صہبا بہ جام آ ہی گیا
میکدے میں جانے کیا کیا گل کھلاتے شیخ جی
وہ تو رندوں کو خیال احترام آ ہی گیا
عمر بھر جس کے لئے آنکھیں رہی ہیں فرش راہ
وہ اجل کا قاصد فرخندہ گام آ ہی گیا
ناز تھے کیا کیا عروج نیر اقبال پر
دوپہر کے بعد دیکھا وقت شام آ ہی گیا
الوداع اے زعم ہستی الفراق اے وہم زیست
موت بن کر مژدۂ عمر دوام آ ہی گیا
ضبط راز غم پہ سو جانیں بھی کر دیتے نثار
کیا بتائیں بس زباں پر ان کا نام آ ہی گیا
حسن نے بھی کروٹیں بدلی ہیں اے دل رات بھر
تیری پیشانی سے داغ ننگ خام آ ہی گیا
جب کہیں لطف سخن کی بات آئی ہے رشیدؔ
اعتبار الملک کا ہر لب پہ نام آ ہی گیا
غزل
آنکھوں آنکھوں میں محبت کا پیام آ ہی گیا
رشید شاہجہانپوری