آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تو منظر بھی آئے گا
کاندھوں پہ تیرے سر ہے تو پتھر بھی آئے گا
ہر شام ایک مسئلہ گھر بھر کے واسطے
بچہ بضد ہے چاند کو چھو کر بھی آئے گا
اک دن سنوں گا اپنی سماعت پہ آہٹیں
چپکے سے میرے دل میں کوئی ڈر بھی آئے گا
تحریر کر رہا ہے ابھی حال تشنگاں
پھر اس کے بعد وہ سر منبر بھی آئے گا
ہاتھوں میں میرے پرچم آغاز کار خیر
میری ہتھیلیوں پہ مرا سر بھی آئے گا
میں کب سے منتظر ہوں سر رہ گزار شب
جیسے کہ کوئی نور کا پیکر بھی آئے گا
غزل
آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تو منظر بھی آئے گا
امیر قزلباش