آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے
ہر شخص جیسے میرے قبیلے کا فرد ہے
جب میں نہ تھا تو میری زمانے میں گونج تھی
اب میں ہوں اور سارے زمانے کا درد ہے
سورج میں آج جتنی تپش ہے کبھی نہ تھی
کیا کیجئے کہ خوں ہی رگ و پے میں سرد ہے
ہم کس سفر پہ نکلے کہ شکلیں بدل گئیں
چہرے پہ جس کے دیکھو مسافت کی گرد ہے
چلتا رہے جو آبلہ پائی کے باوجود
منزل کا مستحق وہی صحرا نورد ہے
ایسا نہ ہو سحر مری بینائی چھین لے
بیداریوں سے اب مری آنکھوں میں درد ہے
بکھرا ہوا ہوں خواہش و حسرت کے درمیاں
جیسے مرا وجود ابھی فرد فرد ہے
غزل
آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے
مرتضیٰ برلاس