آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے یہ نہیں
حصے میں اپنے صرف غبار آئے یہ نہیں
کوئے غم حیات میں سب عمر کاٹ دی
تھوڑا سا وقت واں بھی گزار آئے یہ نہیں
خود عشق قرب جسم بھی ہے قرب جاں کے ساتھ
ہم دور ہی سے ان کو پکار آئے یہ نہیں
آنکھوں میں دل کھلے ہوں تو موسم کی قید کیا
فصل بہار ہی میں بہار آئے یہ نہیں
اب کیا کریں کہ حسن جہاں ہے عزیز ہے
تیرے سوا کسی پہ نہ پیار آئے یہ نہیں
وعدوں کو خون دل سے لکھو تب تو بات ہے
کاغذ پہ قسمتوں کو سنوار آئے یہ نہیں
کچھ روز اور کل کی مروت میں کاٹ لیں
دل کو یقین وعدۂ یار آئے یہ نہیں
غزل
آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے یہ نہیں
جاں نثاراختر