EN हिंदी
آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے یہ نہیں | شیح شیری
aankhen chura ke humse bahaar aae ye nahin

غزل

آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے یہ نہیں

جاں نثاراختر

;

آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے یہ نہیں
حصے میں اپنے صرف غبار آئے یہ نہیں

کوئے غم حیات میں سب عمر کاٹ دی
تھوڑا سا وقت واں بھی گزار آئے یہ نہیں

خود عشق قرب جسم بھی ہے قرب‌‌ جاں کے ساتھ
ہم دور ہی سے ان کو پکار آئے یہ نہیں

آنکھوں میں دل کھلے ہوں تو موسم کی قید کیا
فصل بہار ہی میں بہار آئے یہ نہیں

اب کیا کریں کہ حسن جہاں ہے عزیز ہے
تیرے سوا کسی پہ نہ پیار آئے یہ نہیں

وعدوں کو خون دل سے لکھو تب تو بات ہے
کاغذ پہ قسمتوں کو سنوار آئے یہ نہیں

کچھ روز اور کل کی مروت میں کاٹ لیں
دل کو یقین وعدۂ یار آئے یہ نہیں