آنکھیں بناتا دشت کی وسعت کو دیکھتا
حیرت بنانے والے کی حیرت کو دیکھتا
ہوتا نہ کوئی کار زمانہ مرے سپرد
بس اپنے کاروبار محبت کو دیکھتا
کر کے نگر نگر کا سفر اس زمین پر
لوگوں کی بود و باش و روایت کو دیکھتا
آتا اگر خیال شجر چھاؤں میں نہیں
گھر سے نکل کے دھوپ کی حدت کو دیکھتا
یوں لگ رہا تھا میں کوئی صحرا کا پیڑ ہوں
اس شام تو اگر مری حالت کو دیکھتا
احمدؔ وہ اذن دید جو دیتا تو ایک شام
خود پر گزرنے والی اذیت کو دیکھتا
غزل
آنکھیں بناتا دشت کی وسعت کو دیکھتا
احمد رضوان