EN हिंदी
آنکھیں اسیر خواب تھیں خواب ایک ہی سے تھے | شیح شیری
aankhen asir-e-KHwab thin KHwab ek hi se the

غزل

آنکھیں اسیر خواب تھیں خواب ایک ہی سے تھے

خالد محمود ذکی

;

آنکھیں اسیر خواب تھیں خواب ایک ہی سے تھے
ہر ایک جاں پہ اب کے عذاب ایک ہی سے تھے

راہ وفائے شوق میں واماندگی کے بعد
جو بھی ملے تھے خار گلاب ایک ہی سے تھے

بین السطور ان کے معانی جدا نہ تھے
جتنے بھی مختلف تھے نصاب ایک ہی سے تھے

وہ تو کہیں نہیں تھے جنہیں ڈھونڈھتا تھا میں
جو رہ گئے تھے زیر نقاب ایک ہی سے تھے

کس کس سے اور پوچھتے اس شہر کا پتا
وہ جو ہمیں ملے تھے جواب ایک ہی سے تھے

برسے تو وہ بھی پیاس کی شدت بڑھا گئے
میرے لئے تو سارے سحاب ایک ہی سے تھے