آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے
ہجر میں ایسے فرامش گر دیدار ہوئے
کامل اس فرقۂ زہاد میں اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے
نہ اٹھی بیٹھ کے خاک اپنی ترے کوچے میں
ہم نہ یاں دوش ہوا کے بھی کبھی یار ہوئے
صبح لے آئنہ اس بت کو دکھایا ہم نے
رات اغیار سے ملنے کے جو انکار ہوئے
کچھ تعجب نہیں گر اب کے فلک ٹوٹ پڑے
آج نالے جو کوئی اور بھی دو چار ہوئے
مصر میں آج تجھے دیکھ کے پچھتائے ہیں
سادہ لوحی سے جو یوسف کے خریدار ہوئے
مبتذل میں ہی تو ہوں آپ جو کہیے سچ ہے
رات جھگڑے تو مجھی پر سر بازار ہوئے
یہ ہیں آزردہؔ جو کہتے ہوئے شیاً اللہ
آج دریوزہ گر خانۂ خمار ہوئے
غزل
آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے
مفتی صدرالدین آزردہ