آنکھ اٹھا کر تجھے دیکھا نہ پکارا میں نے
ہجر کی طرح ترا وصل گزارا میں نے
کیا فقط میری ادب سے ہی پرکھ ہوگی یہاں
وہ جو اک عشق ترے عشق میں ہارا میں نے
تو نے جو قرض کی صورت میں جدائی دی تھی
نسل در نسل وہی قرض اتارا میں نے
ایک مانوس سی آواز نے تھاما مجھ کو
خود کو اک بار محبت سے پکارا میں نے
کیا کروں کوئی نظر آتا نہیں تیرے سوا
کیا بتاؤں کہ کیا کیسا نظارا میں نے
غزل
آنکھ اٹھا کر تجھے دیکھا نہ پکارا میں نے
ندیم بھابھہ