آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے
جان کشتی قضا سے لڑتی ہے
شعلہ بھڑکے نہ کیوں کہ محفل میں
شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے
قسمت اس بت سے جا لڑی اپنی
دیکھو احمق خدا سے لڑتی ہے
شور قلقل یہ کیوں ہے دختر رز
کیا کسی پارسا سے لڑتی ہے
نہیں مژگاں کی دو صفیں گویا
اک بلا اک بلا سے لڑتی ہے
نگۂ ناز اس کی عاشق سے
چھوٹ کس کس ادا سے لڑتی ہے
تیرے بیمار کے سر بالیں
موت کیا کیا شفا سے لڑتی ہے
زال دنیا نے صلح کی کس دن
یہ لڑاکا سدا سے لڑتی ہے
واہ کیا کیا طبیعت اپنی بھی
عشق میں ابتدا سے لڑتی ہے
دیکھ اس چشم مست کی شوخی
جب کسی پارسا سے لڑتی ہے
تیری شمشیر خوں کے چھینٹوں سے
چھینٹے آب بقا سے لڑتی ہے
سچ ہے الحرب خدعۃ اے ذوقؔ
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے
غزل
آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے
شیخ ابراہیم ذوقؔ