آنکھ ان سے مری ملی تھی کبھی
دل میں اک آگ سی لگی تھی کبھی
یاد ہے رات وہ حسیں اپنی
آنکھوں آنکھوں میں جو ڈھلی تھی کبھی
بارہا میرا آنا جانا تھا
یہ مرے یار کی گلی تھی کبھی
دل کے اس باغ میں گلاب کی وہ
ایک تازہ کلی کھلی تھی کبھی
اس کو اک دن تو گر ہی جانا تھا
کچی دیوار جو بنی تھی کبھی
یاد ہے اپنی زندگی بھی ارونؔ
چند کانٹوں میں ہی پلی تھی کبھی
غزل
آنکھ ان سے مری ملی تھی کبھی
ارون کمار آریہ