آنکھ رکھے ہوئے ستارے پر
کشتیاں جا لگیں کنارے پر
وقت پڑنے پہ آزما لینا
جان دے دیں گے اک اشارے پر
موڑ پر اس نے مڑ کے دیکھا تھا
جی رہے ہیں اسی سہارے پر
جھیل آنکھوں میں سرمگیں آنسو
چاند بے خود تھا اس نظارے پر
لب و رخسار آتشیں اس کے
شبنمی رقص تھا شرارے پر
اوٹ میں پھر چھپا لیا ماں نے
لاش ماں کی گری دلارے پر
شہر سارا چھتوں پہ تھا بابرؔ
چاند اترا تھا پھر چوبارے پر
غزل
آنکھ رکھے ہوئے ستارے پر
احمد سجاد بابر