EN हिंदी
آنکھ رکھے ہوئے ستارے پر | شیح شیری
aankh rakkhe hue sitare par

غزل

آنکھ رکھے ہوئے ستارے پر

احمد سجاد بابر

;

آنکھ رکھے ہوئے ستارے پر
کشتیاں جا لگیں کنارے پر

وقت پڑنے پہ آزما لینا
جان دے دیں گے اک اشارے پر

موڑ پر اس نے مڑ کے دیکھا تھا
جی رہے ہیں اسی سہارے پر

جھیل آنکھوں میں سرمگیں آنسو
چاند بے خود تھا اس نظارے پر

لب و رخسار آتشیں اس کے
شبنمی رقص تھا شرارے پر

اوٹ میں پھر چھپا لیا ماں نے
لاش ماں کی گری دلارے پر

شہر سارا چھتوں پہ تھا بابرؔ
چاند اترا تھا پھر چوبارے پر