EN हिंदी
آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا | شیح شیری
aankh paDte hi na tha nam shakebai ka

غزل

آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا

ثاقب لکھنوی

;

آنکھ پڑتے ہی نہ تھا نام شکیبائی کا
در مے خانہ تھا نقشہ تری انگڑائی کا

ماسوا اس کے نہیں جس کا کوئی اور شریک
کون بتلائے گا عالم مری تنہائی کا

پاک دامانیٔ یوسف تھی زلیخا کی سزا
راستہ چاک سے پیدا ہوا رسوائی کا

سختیاں ہمت دل ہو تو بدل جاتی ہیں
موت اک کھیل ہے لیکن ترے شیدائی کا

ہم کو ان مے کدۂ دہر سے امید نہیں
ساغر الٹا ہوا ہے گنبد بینائی کا

تار ملبوس میں تھی یا خط تقدیر میں تھی
حال کھلتا نہیں یعقوب کی بینائی کا

آنے دے نیند تو سب سوئیں مگر اے توبہ
نالۂ‌ عشق کا اس پر شب تنہائی کا

دل نازک متحمل نہیں غم ہو کہ سرور
پھول مقتول ہے خود اپنی ہی رعنائی کا

نہ ہوا وصل تمنا نہ گھٹی وحشت دل
کیا نتیجہ تھا مری بادیہ پیمائی کا

وہ نہ آئیں سر بالیں کہ میں بچنے کا نہیں
دم نہ ٹوٹے مرے ساتھ ان کی مسیحائی کا

آئنہ جس میں سدا ڈوب کے ابھرا کیا حسن
ایک ٹھہرا ہوا پانی ہے خود آرائی کا

ساتھ دینے کا تو احسان ہے مجھ پر لیکن
شمع نے نام ڈبویا مری تنہائی کا

حسن کے ہاتھ بندھے تو وہ ذرا دیر سہی
مجھ پر احساں تری آئی ہوئی انگڑائی کا

اس کے سننے کے لئے جمع ہوا ہے محشر
رہ گیا تھا جو فسانہ مری رسوائی کا

شوق پا بوسیٔ محبوب تھا ورنہ ثاقبؔ
سنگ در پر کوئی موقع تھا جبیں سائی کا