EN हिंदी
آنکھ نے پھر عذاب دیکھا ہے | شیح شیری
aankh ne phir azab dekha hai

غزل

آنکھ نے پھر عذاب دیکھا ہے

رخشاں ہاشمی

;

آنکھ نے پھر عذاب دیکھا ہے
ایک تازہ گلاب دیکھا ہے

نیند راتوں کو اب نہیں آتی
خواب ایسا خراب دیکھا ہے

سانس لینا بھی ہو گیا مشکل
جب سے آنکھوں نے خواب دیکھا ہے

جانے کیسے نشے میں ہے دل بھی
آج اس نے شراب دیکھا ہے

زخم بھی پھول جیسے ہیں رخشاںؔ
زخم تو بے حساب دیکھا ہے