آنکھ نے پھر عذاب دیکھا ہے
ایک تازہ گلاب دیکھا ہے
نیند راتوں کو اب نہیں آتی
خواب ایسا خراب دیکھا ہے
سانس لینا بھی ہو گیا مشکل
جب سے آنکھوں نے خواب دیکھا ہے
جانے کیسے نشے میں ہے دل بھی
آج اس نے شراب دیکھا ہے
زخم بھی پھول جیسے ہیں رخشاںؔ
زخم تو بے حساب دیکھا ہے

غزل
آنکھ نے پھر عذاب دیکھا ہے
رخشاں ہاشمی