EN हिंदी
آنکھ میں ٹھہرا ہوا سپنا بکھر بھی جائے گا | شیح شیری
aankh mein Thahra hua sapna bikhar bhi jaega

غزل

آنکھ میں ٹھہرا ہوا سپنا بکھر بھی جائے گا

یوسف حسن

;

آنکھ میں ٹھہرا ہوا سپنا بکھر بھی جائے گا
رات بھر میں نیند کا نشہ اتر بھی جائے گا

دن کی چمکیلی صداؤں سے گریزاں راہرو
شام کی سرگوشیاں سن کر ٹھہر بھی جائے گا

جسم و جاں میں جلتی بجھتی لرزشیں رہ جائیں گی
وہ مرے احساس کو چھوکر گزر بھی جائے گا

بے تعلق سی کرے گا گفتگو مجھ سے مگر
اس کا لہجہ اس کی باتوں سے مکر بھی جائے گا

وہ بھی ہوگا آہٹوں کا منتظر میری طرح
اور فقط جھونکا ہوا کا اس کے گھر بھی جائے گا