آنکھ میں خواب زمانے سے الگ رکھا ہے
عکس کو آئنہ خانے سے الگ رکھا ہے
گھر میں گلدان سجائے ہیں تری آمد پر
اور اک پھول بہانے سے الگ رکھا ہے
کچھ ہوا میں بھی چلانے کے لئے رکھا جائے
اس لیے تیر نشانے سے الگ رکھا ہے
اس کے ہونٹوں کو نہیں آنکھ کو دی ہے ترجیح
پیاس کو پیاس بجھانے سے الگ رکھا ہے
غیر ممکن ہے کسی اور کے ہاتھ آ جائے
وہ خزانہ جو خزانے سے الگ رکھا ہے
اک ہوا سی کہیں باندھی ہے چھپانے کے لئے
اک تماشا سا لگانے سے الگ رکھا ہے
خواب ہی خواب میں تعمیر کیا ہے آزرؔ
گھر کو بنیاد اٹھانے سے الگ رکھا ہے
غزل
آنکھ میں خواب زمانے سے الگ رکھا ہے
دلاور علی آزر